Thursday, December 27, 2007

ماتم

کس بات کا ماتم کیا جائے بے نظیر کے مرنے کا چار بچوں کی ماں کے مرنے کا ایک بیوی کا خاوند سے بچھڑنے کا ایک لیڈر کے مرنے کا ملک کی ایک ایسی رھنما کا جو اس ملک کو آپس مین جوڑنے کے لئے زننجیر تھی میں کبھی بھی بے نظیر کا فیں نہیں رھا لیکن میں نے دوستوں کت سامنے ھمیشہ اس بات کا اقرار کیا حے کہ بے نظیر اس ملک کا سرمایہ ھیں اس ملک مین اس کے لاکھوں پیروکار ہیں وہ اپنے لحاظ سے سوچتی ہے اس مین اتنی قابلیت ہے کہ وہ جس بات کو سچ سمجھے اس کے لئے دلائل لا سکے وہ اور نواز شریف یہ دعوہ کر سکتے تھے کہ وہ قومی رھنما ہیں اس کے جسم سے نکلنے والے خون کے قطروں نے اس کی جان لے لی اور پاکستان کے جسم کو انتہائی کمزور کر دیا ھے میں کس کے ھاتھ پر اس کا خون تلاش کرو دشمن کا وار گہرا بہی ھے اور دو دھاری بھی اس نے میری قوم کو نقصان بھی پہنچایا حے اور آپس میں لڑایا بھی مین کس کی طرف دلاسے کی لِے دیکھوں میں تو یہ محسوس کر رھا ھوں کہ میرا سارہ جسم سن ھو چکا میں بے بسی سے آدم خور گدوں کو آپنے ارد گرد منڈلاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ان کی خوشی سے نکلتی ہوئی چیخوں کو سن رہا ہوں اپنے نام نہاد رہنماوں کو انکے آگے سر جھکائے اگلے حکم کا منتظر دیکھ رہاہوں کیا وہ صبح صادق کا خواب جھوٹا خواب تھا جو میں نے دیکھا تھا نہیں نہیں وہ خواب سچا ھے مجھے یہ یقیں ھے کی صبح صادق آچکی مجرم سے شروع ہو نے والا سال اپنے سا تھ ضرور پاکستانیوں کے لئے عزت وآبروکا پیغام لائے گا محرم کا مہینہ نئے دور کا اٰلان ھو گا

Tuesday, November 6, 2007

صبح صادق

مجھے ایسے لگ رھا حے کہ صبح صادق قریب ھے حالات جس نہج پر جا رھے ہیں اس سے تو ایسا ھی نظر آرھا ھےمیری یہ دعا تھی کہ واقعات آگے بڑھیں اس ایمرجنسی کے نفاذ نے معاملہ کو آخری سٹیج پر پہنچا دیا ھے بقول جنرل صاھب اس سٹیج پر مکمل جمہوریت بحال ھو جاےَ گی یہ بات سچ ھے اور یقیننا ایسا ھی ھو گا لیکن یہ جمہوریت کی شکل کیسی ھو گی اور کس کی پنسد کی ھو گی یہ دنوں ہفتوں اور مہینوں کی بات ھے سالوںکی نہیں

Sunday, July 22, 2007

صبح کاذب

صبح کاذب
ایک فیصلہ ھی ھے لمبے سفر کا پھلا قدم اس فیصلے نے قوم کو اگلا قد م اٹھانے پر مجبور کرنا ھے آپ کے خیال میں تاریکی کی قوتیں اتنی بے بس ھیں اتنی لاچار ھیں کہ وہ پہلی مخالفت پر ھتیار پھینک دیں کیا صدر کو بیھٹے بھیٹے یہ خیال آیا کہ چیف کو باھر نکال دینا چاھئے یہ خیال اگر آیا بھی کوئی نہ کوئی وجہ اس کا باعث تھی تو کیا وہ وجہ ختم ھو گئی کیا وہ صدر جو یہ کہتا ھے کہ آپ ھتیھار پھینک دیں ورنہ مارے جاو گے یا ھم آپ کو وھاں سے ھٹ کریں گے جہاں سے آپ کے وھم وگماں میں بھی نہ ھو گا یا چالیس پنتالیس لاشوں پر کھڑا ہو کر جو یہ کہے کہ کراچی کے عوام نے طاقت کا مظاھرہ کیا ھے تو وہ خالی ھاتھ جن کی ھاتھ میں ھرف کسی کا فیصلہ کرنا ھے ان کے آگے سر جھکا دے گا وہ شخص جو صرف طاقت کے مظاھرے کو مانتا ھو اور جانتا ھو کہ گولی میں کتنی طاقت ھے وہ اب آرام سے بیھٹھ جائے گا مجھے یہ کہنے کی آجازت دیجئے کہ ایسا نہہیں ھے
دور کیوں جائیں چند سال پہلے کی بات ھے نواز شریف اور اسحاق خاں کی چپقلش کو یاد کیجئے یہی عدالت تھی اسی نے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا تھا لیکں ھم سب جا نتے ھیں کہ اس فیصلہ پر عمل نہ ھوا دونوں لڑتے وقت یہ بھول گئے کہ بندوق کسی کے ھاتھ میں نہ ھے ایک عوام کی طاقت پر ناز کرتا مارہ گیا دوسرہ ایسٹبلشمنٹ کی طاقت پر بھروسہ کیئے ھوئے تھا اور وہ جن کے ھاتھ میں بندوق تھی انہوں نے دونوں کو اٹھا باھر پھینکا اب بھی ویسی ھی تکون ھے کچھ کچھ فرق ھے ایک طرف عدلیہ ھے جس کے ساتھ عوام اب فرق یہ ھے کہ عوام کل وھم عدلیہ کے حق میں ھیں ان کے ساتھ وکیل ھیں دلائل کی طاقت سے مالامال مڈل کلاس کے نمائندے اتحاد کی قوت سے آراستہ صحیح اعتدال پسندی کے مظھر دوسرے فریق صدر ہیں طاقت کی زبان جاننے والے اندرونی طاقت کے خزانوں پر قابض پر اسرار طاقتوں کےما لک سب کی کمزوریوں اور توانایئوں کے عالم سمندر پار طاقتوں کے پسندیدہ امریکہ کی آنکھ کے تارےیورپ کے پیارے روشن خیالوں کے دلارے بندوق جن کی ھاتھ میں ھےجس پر وہ تان لیں وہ جان کی آمان نہ پائے تییسرے میرے جیسے لاچار ومجبور تماشہ دیکھنے والے ھاتھ اٹھائے ھوئے یہ دعا کرنے پر مجبور کہ کاش بندوق سے گولی نہ چلے تو جب حلات یہ ھوں تو کون سی صبح اور نوید نو یہ تو صبح کاذب ھے اسکے صبح صادق میں بدلنے کی دعا کیجئے سچ یہ ھے کہ ھر صبح کاذب صبح صادق کی نوید ھوتی ھےآپ خود سوچیے حکومت نے یہ سارہ منظر اپنے آپ کو ذلیل کرنے کے لئے سجایا تھااگر اس کا جواب نہیں میں ھے تو حکومت کے اگلے قرم کا انتظار کریں

Thursday, July 19, 2007

چار ملک

میں جب بھی سوچتا ھو ں تو مجھے فلسطین افغانستاں عراق اور پاکستان یاد آتے ھیں جب فلسطین کو یاد کرتا ھوں تو یاسر عرفات یاقد آتا ھے اس نے اسرائیل کے خلاف آواز آٹھائی جنگ لڑی دھشت گرد کہلایا زمین کے بدلے امن کا علم بردار بنا نوبل انعام کا حقدار ٹھرایا گیاآخر اسی امریکہ کا کاسہ لیس بنا اپنے ھی عوام نے چھوڑ دیا عوام حماس کے ھو گئے امریکہ کی نظر میں عوام دھشت گرد اور یاسر عرفات اعتماد کے قابل بن گیا آخر میں اسرائیل نے جوتے مارے اور یاسر عرفات اپنے مھربانوں کی طرف دیکھتا رھا عباس کو اس کی جگہ لایا گیا اور صاف بتا دیا کہ نوالہ بھی اس وقت ملے گا جب اپنوں کو مارو گے
افغان بھی کبھی امریکہ کے چھیتے تھے مدرسوں کے طالب علموں کو مجاھدوں مین شامل کرتے تھے ان پر فخر کیا جاتا تھے کرزئی اور طالب ایک تھے لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا کرزئی منظور نظر ٹھرا اور طالب زمانے کے اجھڑ صورت حال یہ ھے کہ عام افغانیوں کو مار کرطالبان قرار دے دیا جاتا ھے اور کرزئ سے اسپر قبولیت کی سند لی جاتی ھے عوام تباھ ملک برباد اور اقوام علم اس پر خوش کہ دھشت گردوں کو چن چن کر مارا جا رھا ھے
عراق وہی صدام جی ھان ایران کے خلاف لڑنے والا مرد میدان جس کی ھر لحاظ سے مدد کی گئی لیکں پھر اسے ڈکٹیٹر قرار دیا گیا اور اس بہانے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اب وھی عراق ھے جس کا خود اقرار کرتے ھیں کہ دھشت گردوں سے بھرا پڑا ھے
پاکستا ن دھشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑا حواری سب سے زیادہ جس ملک کے فوجی اس جنگ میں مرے وہ پاکستان ھے وہپی مشرف جس سے ملنے کے لئے امریکہ کا صدر تیار نہ تھا اب وہی منظور نظر ھے اس کے عوام کو کوئی مارے وہ ٹھیک کیونکہ وہ انتہا پنسد ہیں چاھے وہ ان کی حفاظت کرنے والے ہوں اور چاھے سمندر پار سے آنے والے
یہ تمم باتیں سچ ہیں لیکں سب سے بڑا سچ یہ ھے کہ یہ تمام ملک مسلمان ھیں تیں ملک تباہ ھو چکے آخری کی تیاری ھے مسلمان مسلمان کو مار رھا ھے ایک طبقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھ کر لڑ رھا ھے اور دوسرا اس لئے اسے مار رھا ھے اس سے اقوام عالم میں عزت نہیں ملتی
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے دُنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

Thursday, May 10, 2007

انقلاب


ھر قوم میںظالم بھی ہوتے ہیںاور مظلوم بھی ظالم کے لئے صرف ایک مقصد ہوتا ھے صرف اپنے مفادات کی حفاظت اسلئے اس کی ہر حرکت ہر کام اسی مقصدکو پورا کرنے کے لئے یوتا ھے اسکے لئے کسی قانون ظابطہ کی پروا نہیںکی جاتی ھے ہر قانون کو نوک خنجر اور پاؤں کی ٹھوکر سے تہہ وبالا کر دیا جاتا ھے صرف اور صرف اپنا ذاتی مفاد جس کو کوئی بھی خوش کن نام دے دیا جاتا ھے جیسے قومی مفاد سربلندی قوم وقار ملت حتکہ اسے ھی قانون کی حکمرانی قرار دے دیا جاتا ھے اس کے مقابلہ میں دوسرہ گروہ مظلوم عوام کا ھے جن کا کام ان مظالم کو سہنا ھے یہی لوگ قانون کی حکمرانی اور امن کے طلب گار ھوتے ہیں اگر قانون کی حکمرانی اور انصاف کا کچھ حصہ ہی انہیں میسر ھو جائے تو تھوڑی بہت زیادتی کو برداشت کرتے رھتے ہیں لیکں انصاف اور امن کے لئے ھل من مزید کا نعرہ ضرورلگاتے رھتے ہیں اور وہ بھی خاموشی کے ساتھ کبھی کبھار بلند آھنگ کے ساتھ ان کی مثال اس آگ کی سی ھے جو آھستہ آھستہ سلگتی رھتی ھے اس وقت ان سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا لیکن کبھی کبھار یہ آگ بھڑک اٹھتی ھے اور آس پاس کی ھر چیز کو راکھ کر دیتی ھے اسے انقلاب کا نام دے دیا جاتا ھے

Monday, May 7, 2007

جج جنرل جون اور جوتاعوام کا

حکومت کے معاملات حکمران ھی بہتر جانتے ہیں لیکں ریاست عوام کے بھروسے پر ھے آگر عوام ریاست کے معاملات سے بے تعلق ہو جائے تو ملک میں انارکی پھیل جاتی ھے اس حالت میں مفاد پرستوںکی بن آتی ھےزور آور یہ سمجتھے ہیںکہ ان کو روکنے والا کوئی نہیں ھے آپنے آپ کو خداسمجھنے لگتے ہیں اس حالت میں عوام کے لئے ایک ھی راستہ ھوتا ھےکہ خدا کے سامنے اپنی فریاد پیش کرے عوام کا اجتمائی شعور انتہائی بلند ھوتا ھے وہ موقع کی تلاش میں بییٹھ جاتے ہیں ان کا آجتمائی شعور انہیں اجتمائی خودکشی سے روکتا ھے وہ فرعون کے لئے موسی کا انتظار کرتے ہیں اس وقت کے عقل مند عوام کی لاتعلقی دیکھ کر اسے ھےلعن طعن کرنا شروع کردیتے ہیں اسے ھی تمام معاملات کا باعث قرار دیتے ہیں وہ خدا کی تقدیر تدبیر اورخدائی کو بھول کر ظاھری حالات کے مطابق فیصلے سنانا شروع کر دیتے ہیں ان کے نزدیک معاملات صرف مادی حالات کے مطابق چلتے ہیں وقت نے ہمشہ انہیں غلط ثابت کیا ھے اللہ سے انکی بےبسی دیکھی نہیں جاتی آخر فلک سے ان کے نالوں کا جواب آتا ھے


جب جنرل نے یہ سمجھا کہ حالات اس کے قابو میں ہیں اس نے اپنے منصوبے پر عمل کرنا شروع کر دیا لیکن اللہ انسانوں کی تدبیروں کو ان پر ہی الٹ دیتا ھے وہ جج جن کو کوئی جرنیل کبھی خاطر میںنہ لایا جنہوں نے ہمیشہ ان کے در پر سجدے کئے ان سے بزور اپنے لئے سند حکمرانی حاصل کی اور پھر اسی زور پر ان کو ججی سے نکال باھر کیا ان ھی میں سے ایک جج نے انکار کی جرائت کی تو آسمان نے یہ حالات دیکھے کہ جنرل کی بے بسی قابل دید ھے باقی ججوںکے لئے بھی اس نے سجدہ کرنا مشکل بنا دیا انکی کمریں بھی لکڑ کی بن گئیں عوام نےجنرل پر جج کا جوتا برستا دیکھا تو وہ بھی اس موسم میں موسم کی شدت کوخاطر میں لائے بغیر میدان میں نکل آئے انہوں نے ساری دنیا کو بتلا دیا کہ وہ بے حس بےوقوف بے شعور نہیں ہیں ان کی حالات پر پوری نظر ھے لیکن وہ نعرہ بازوں کے چنگل مین نہیں پھنسین گے عوام کو بھی اپنا جوتا چلانا آتا ھے عوام اپنے جوتے کی مکمل دیکھ بھال کرتے ہیں اور جب اسے استعمال کرتے ہیںتو اس کی مار میں بہت شدت ھے عوام جانتے ہین کہ نیا جوتا مشکل
سے ملتا ھےلیکن جب انہیں اس کا استعمال کرنا ہو تو وہ جون کی گرمی میںبھی اس کے استعمال سے پرھیز نہیں کرتے
تو کیاوقت جشن آپہنچا اونچی پگڑیوں کو آچھالنے اور کبھی خدا کے آگے بھی نہ جھکنےوالے سروں کو کاٹنے کا لمحہ آپہنچا
مجھے یہ کہنے کی آجازت دیجئے کہ نہیں نہین آپ خوابوں کی دنیا بسائے بیٹھے ہیںابھی تو شعلہ بھڑکا ھے ابھی تو پروانوں جانثاروں کو اذن جانثاری ملا ھے ابھی تو یہ دیکھا جانا ھے کہ کوں سا مجنوں جان کی قربانی دینے والا ھے کون اپنے خوں سے اپنی داستان قلم کرے گآپ اگر اس خیال میں ہیں کہ ظالم ظلم سے توبہ کر لےگا اس قوم کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دےدیا جائےگا تو یہ بات غلط ھے کیا آپ نے نہیںدیکھا کہ اس قوم کو کیسے کیسے بہلاوئے دئے گئے وہ قوم جس نے اپنی آزادی کا آغاز قربانیوں سےکیا اور ساٹھ سال سے قربانیوںکا سلسلہ جاری وساری ھے جسے روز یہ بتایا جاتا ھے کہ اس کے لئےسب سے بہتر راستہ یہ ھے کہ وہ طاقتور کے سامنے سر جھکا لےاور جو روز اس بات سے انکاری ھےاور اپنے مقصد کے لئے قربانیاں دئے جارھی ھے خوشی کی بات یہ ھے کہ اس قوم بےنواکو کوئی نہ کوئی سرفروش ایسا مل جاتا ھے جو اس میں ایک نئی امید کی کرن جگا جاتا ھے ایسے حالات میںقربانیاںقوم کو ایک نئی زندگی دے جاتی ہین حالات کل کو کوئی اور رنگ اختیار کر جائیںاس قوم کو کچھ دیر اور انتظار کرنا پڑ جائے لیکن اس چلچلاتی دھوپ کے بعد ٹھنڈی چھاوں ضرور ھے

Wednesday, May 2, 2007

صحت کے لئے مفید تیرہ آچھی عادات

ناشتہ ضرور کیجئے لیکن کم چربی کے ساتھ
خوراک میں مچھلی اور اومیگا ۳ فیٹی ایسڑ ضرور شامل کریں جیسے ٹوفو سویابیں آخروٹ کینولا اور دوسرے تیل
نیند ضرور پوری لیں
لوگوں سے گل مل کر رہیں
ورزش کریں
کوئی صحت مند مشغلہ اپنائیں
دانت صاف رکھٰیں
اپنی جلد کی حفاظت کریں
سبزی اور پھل زیادہ لین
پانی اور دودھ ضرور لیں
چائے لیں
پیدل چلیں
اپنے کاموں کی منصوبہ بندی ضرور کریں
taken from webmd.com

Thursday, April 26, 2007

صوفی یا مولوی

ایک باریش آدمی صاف ستھرے کپڑے پہنے سڑک سے گزر رہا تھا اس وقت اس کے پاس سے ایک گدھا گاڑی والا سامان لادے رواںدواں تھا گدھا گاڑی کے سامنے ایک دم ھلکی سی چڑھائی آگئی گاڑی بان سے اس پر گاڑی چڑھائی نہ گئی ناکام کوشش کے بعد اس نے ساتھ گزرنے والے شخص کو صوفی صاحب کہہ کرآواز دی آور زور لگانے کی درخواست کی ایک ھی زور میں گاڑی آگے گزر گئی لیکن اس بات نے اس باریش شخص کو اس سوچ میں مبتلا کر دیا کہ گاڑی بان نے اسے صوفی کہہ کر
پکارااس کی وجہ اس کا اس وقت ضرورت مند ھونا ھے اگر اس وقت اسے ضرورت نہ ھوتی تو شاید یہ مولوی کہہ کر پکارتا ایسا کیو ن ھےا

Thursday, April 19, 2007

سچ دوبارہ

اب میں بات کرنا چاھتا ھوں ماھر حضرات کی یہ وھ حضرات ہیںجو کسی ایک شعبہ میں ماھر ھونے کے دعوئے دار ہیں جیسے شپیشلسٹ ڈاکٹر ان حضرات میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو پندرہ کڑور ماہریں کے ساتھ جا ملتے ھیں اپنی بات واضح کرتا ہوں ایک ڈاکٹر کے پاس ایک مریض آیا انہوں نے اسے بتایا آپ کا اپریشن ہو گا اس نے کہا کر دیں ڈاکٹر (ماھر) نے بےہوشی کے ماہر کو بلایا کہ ایک مریض کو بے ہوش کر دیں ماہر بے ہوشی نے انجکشن لگائے لیکن گلے میں سانس کےلئے ٹیوب نہ ڈال سکے کوئی بات نہیں کبھی کبھار ایسے ہو جاتا ھے اس نے کہا ٹیوب نہیںجا رھی بہتر ھے اپریشن ملتوی کر دیں ڈاکٹر صاحب نے کہا میںنے پیسے پکڑے ہوئے ہیں اس لئے اسے بے ہوش ضرور کرنا ھے اس نے دوبارہ کوشش کی لیکن ناکام اب ڈاکٹر صاحب نے خود کوشش شروع کر دی لیکن ناکامی ایک اور ڈاکٹر کو بےہوشی کے لئے طلب کیا آخر میں مریض اللہ کے پاس پہنچ گیا ایسے ماہر کو آپ نقاب پوش ڈاکو تو کہی سکتے یہں ماہر نہیں لیکں کیا کریں ہمارا پیارہ ملک ایسے ماہروں سے بھرا پڑا ھے

سڑک جواڑھائی سال سے نامکمل ھےا





Sunday, April 15, 2007

ھر پاکستانی اپنے آپ کو ماھر سمجھتا ھے یہ ملک کے لئے کتنی آچھی بات ھے وہ ملک کتنا خوش قسمت ھے جس مین پندرہ کڑورماھر موجود ھوں لیکن اسی بات مین ھی اس ملک کے لئے المیئہ ھے اس ملک کے لئے دکھ کی بات یہ ھے کہ یہی ماھر وہ کام جو کر رھے ھیںاس کے ایکسپرٹ نہیں ھیںبلکہ باقی تمام کاموں کے ایکسپرٹ ھیں مثال کے طور پر ڈاکٹر صاحب مریضوں کےعلاج مہں دلچسپی نہیں رکھتے لیکن اس بات کو آسانی سے سمجھا سکتے ہیں کہ دینی مدرسوں کا نظام کیسے بہتر کیا جا سکتا ھے حکیم صاحب کو بوٹی کو پہچان نہیں لیکن یہ ضرور بتا سکتے یہں کہ کس طرح سڑکوں پر ٹریفک کو رواں دواں رکھا جا سکتا ھے کوئی بھی فوجی (سپاھی)کرکٹ میچ کو جیتنے کی بہترین تیکنیک بتا سکتا ھے ایک جنرل یہ بتا سکتا ھے کہ قرآن کے چالیس سپارے کیسے پڑھائے جائیں


چالیس سپارے بھی ھمارے جنرل صاحب کی دریافت ھےآج کل وہ ماھر تعلیم(مھر تعلیم) ھیںاس لئے انہیں وزیر تعلیم لگایا گیا ھے

Wednesday, March 28, 2007

حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کرحضرت حلیمہ سعدیہ اپنے گاوں واپس پہنچی اس مقام کا طول 40.856880اور ھے21.001211 عرض بلد
اگر آپ نقشہ پر دیکھیں اس کے لئے یہ شارٹ
کٹ ھے

http://wikimapia.org/#y=21001084&x=40856894&z=18&l=0&m=a&v=2

یھاں پر مسجد حلیمہ سعدیہ موجود ھے اس جگہ پر حضرت حلیمہ کا گھر تھا

Sunday, March 25, 2007

کفر ٹوٹا

بڑی دیر کے بعد اپنے بلاگ کو آن لائن دیکھ سکا اس میں حکومت کا ھاتھ زیادہ لگتا ھے جس نے ویب پیج تک رسائی مشکل بنا دی تھی آج کل میں حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر کام کر رھا ھوں میری کوشش ھے کہ سیرت والے مقامات کو موجودہ ناموں اورطول عرض بلد کے لحاظ سے پیش کیا جائے تاکہ عام قاری گوگل ارتھ کے زریعہ سے ان مقام کو دیکھ سکے مدد اور دعا کی درخوست ھے