Sunday, July 22, 2007

صبح کاذب

صبح کاذب
ایک فیصلہ ھی ھے لمبے سفر کا پھلا قدم اس فیصلے نے قوم کو اگلا قد م اٹھانے پر مجبور کرنا ھے آپ کے خیال میں تاریکی کی قوتیں اتنی بے بس ھیں اتنی لاچار ھیں کہ وہ پہلی مخالفت پر ھتیار پھینک دیں کیا صدر کو بیھٹے بھیٹے یہ خیال آیا کہ چیف کو باھر نکال دینا چاھئے یہ خیال اگر آیا بھی کوئی نہ کوئی وجہ اس کا باعث تھی تو کیا وہ وجہ ختم ھو گئی کیا وہ صدر جو یہ کہتا ھے کہ آپ ھتیھار پھینک دیں ورنہ مارے جاو گے یا ھم آپ کو وھاں سے ھٹ کریں گے جہاں سے آپ کے وھم وگماں میں بھی نہ ھو گا یا چالیس پنتالیس لاشوں پر کھڑا ہو کر جو یہ کہے کہ کراچی کے عوام نے طاقت کا مظاھرہ کیا ھے تو وہ خالی ھاتھ جن کی ھاتھ میں ھرف کسی کا فیصلہ کرنا ھے ان کے آگے سر جھکا دے گا وہ شخص جو صرف طاقت کے مظاھرے کو مانتا ھو اور جانتا ھو کہ گولی میں کتنی طاقت ھے وہ اب آرام سے بیھٹھ جائے گا مجھے یہ کہنے کی آجازت دیجئے کہ ایسا نہہیں ھے
دور کیوں جائیں چند سال پہلے کی بات ھے نواز شریف اور اسحاق خاں کی چپقلش کو یاد کیجئے یہی عدالت تھی اسی نے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا تھا لیکں ھم سب جا نتے ھیں کہ اس فیصلہ پر عمل نہ ھوا دونوں لڑتے وقت یہ بھول گئے کہ بندوق کسی کے ھاتھ میں نہ ھے ایک عوام کی طاقت پر ناز کرتا مارہ گیا دوسرہ ایسٹبلشمنٹ کی طاقت پر بھروسہ کیئے ھوئے تھا اور وہ جن کے ھاتھ میں بندوق تھی انہوں نے دونوں کو اٹھا باھر پھینکا اب بھی ویسی ھی تکون ھے کچھ کچھ فرق ھے ایک طرف عدلیہ ھے جس کے ساتھ عوام اب فرق یہ ھے کہ عوام کل وھم عدلیہ کے حق میں ھیں ان کے ساتھ وکیل ھیں دلائل کی طاقت سے مالامال مڈل کلاس کے نمائندے اتحاد کی قوت سے آراستہ صحیح اعتدال پسندی کے مظھر دوسرے فریق صدر ہیں طاقت کی زبان جاننے والے اندرونی طاقت کے خزانوں پر قابض پر اسرار طاقتوں کےما لک سب کی کمزوریوں اور توانایئوں کے عالم سمندر پار طاقتوں کے پسندیدہ امریکہ کی آنکھ کے تارےیورپ کے پیارے روشن خیالوں کے دلارے بندوق جن کی ھاتھ میں ھےجس پر وہ تان لیں وہ جان کی آمان نہ پائے تییسرے میرے جیسے لاچار ومجبور تماشہ دیکھنے والے ھاتھ اٹھائے ھوئے یہ دعا کرنے پر مجبور کہ کاش بندوق سے گولی نہ چلے تو جب حلات یہ ھوں تو کون سی صبح اور نوید نو یہ تو صبح کاذب ھے اسکے صبح صادق میں بدلنے کی دعا کیجئے سچ یہ ھے کہ ھر صبح کاذب صبح صادق کی نوید ھوتی ھےآپ خود سوچیے حکومت نے یہ سارہ منظر اپنے آپ کو ذلیل کرنے کے لئے سجایا تھااگر اس کا جواب نہیں میں ھے تو حکومت کے اگلے قرم کا انتظار کریں

Thursday, July 19, 2007

چار ملک

میں جب بھی سوچتا ھو ں تو مجھے فلسطین افغانستاں عراق اور پاکستان یاد آتے ھیں جب فلسطین کو یاد کرتا ھوں تو یاسر عرفات یاقد آتا ھے اس نے اسرائیل کے خلاف آواز آٹھائی جنگ لڑی دھشت گرد کہلایا زمین کے بدلے امن کا علم بردار بنا نوبل انعام کا حقدار ٹھرایا گیاآخر اسی امریکہ کا کاسہ لیس بنا اپنے ھی عوام نے چھوڑ دیا عوام حماس کے ھو گئے امریکہ کی نظر میں عوام دھشت گرد اور یاسر عرفات اعتماد کے قابل بن گیا آخر میں اسرائیل نے جوتے مارے اور یاسر عرفات اپنے مھربانوں کی طرف دیکھتا رھا عباس کو اس کی جگہ لایا گیا اور صاف بتا دیا کہ نوالہ بھی اس وقت ملے گا جب اپنوں کو مارو گے
افغان بھی کبھی امریکہ کے چھیتے تھے مدرسوں کے طالب علموں کو مجاھدوں مین شامل کرتے تھے ان پر فخر کیا جاتا تھے کرزئی اور طالب ایک تھے لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا کرزئی منظور نظر ٹھرا اور طالب زمانے کے اجھڑ صورت حال یہ ھے کہ عام افغانیوں کو مار کرطالبان قرار دے دیا جاتا ھے اور کرزئ سے اسپر قبولیت کی سند لی جاتی ھے عوام تباھ ملک برباد اور اقوام علم اس پر خوش کہ دھشت گردوں کو چن چن کر مارا جا رھا ھے
عراق وہی صدام جی ھان ایران کے خلاف لڑنے والا مرد میدان جس کی ھر لحاظ سے مدد کی گئی لیکں پھر اسے ڈکٹیٹر قرار دیا گیا اور اس بہانے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اب وھی عراق ھے جس کا خود اقرار کرتے ھیں کہ دھشت گردوں سے بھرا پڑا ھے
پاکستا ن دھشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑا حواری سب سے زیادہ جس ملک کے فوجی اس جنگ میں مرے وہ پاکستان ھے وہپی مشرف جس سے ملنے کے لئے امریکہ کا صدر تیار نہ تھا اب وہی منظور نظر ھے اس کے عوام کو کوئی مارے وہ ٹھیک کیونکہ وہ انتہا پنسد ہیں چاھے وہ ان کی حفاظت کرنے والے ہوں اور چاھے سمندر پار سے آنے والے
یہ تمم باتیں سچ ہیں لیکں سب سے بڑا سچ یہ ھے کہ یہ تمام ملک مسلمان ھیں تیں ملک تباہ ھو چکے آخری کی تیاری ھے مسلمان مسلمان کو مار رھا ھے ایک طبقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھ کر لڑ رھا ھے اور دوسرا اس لئے اسے مار رھا ھے اس سے اقوام عالم میں عزت نہیں ملتی
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے دُنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر