Monday, May 7, 2007

جج جنرل جون اور جوتاعوام کا

حکومت کے معاملات حکمران ھی بہتر جانتے ہیں لیکں ریاست عوام کے بھروسے پر ھے آگر عوام ریاست کے معاملات سے بے تعلق ہو جائے تو ملک میں انارکی پھیل جاتی ھے اس حالت میں مفاد پرستوںکی بن آتی ھےزور آور یہ سمجتھے ہیںکہ ان کو روکنے والا کوئی نہیں ھے آپنے آپ کو خداسمجھنے لگتے ہیں اس حالت میں عوام کے لئے ایک ھی راستہ ھوتا ھےکہ خدا کے سامنے اپنی فریاد پیش کرے عوام کا اجتمائی شعور انتہائی بلند ھوتا ھے وہ موقع کی تلاش میں بییٹھ جاتے ہیں ان کا آجتمائی شعور انہیں اجتمائی خودکشی سے روکتا ھے وہ فرعون کے لئے موسی کا انتظار کرتے ہیں اس وقت کے عقل مند عوام کی لاتعلقی دیکھ کر اسے ھےلعن طعن کرنا شروع کردیتے ہیں اسے ھی تمام معاملات کا باعث قرار دیتے ہیں وہ خدا کی تقدیر تدبیر اورخدائی کو بھول کر ظاھری حالات کے مطابق فیصلے سنانا شروع کر دیتے ہیں ان کے نزدیک معاملات صرف مادی حالات کے مطابق چلتے ہیں وقت نے ہمشہ انہیں غلط ثابت کیا ھے اللہ سے انکی بےبسی دیکھی نہیں جاتی آخر فلک سے ان کے نالوں کا جواب آتا ھے


جب جنرل نے یہ سمجھا کہ حالات اس کے قابو میں ہیں اس نے اپنے منصوبے پر عمل کرنا شروع کر دیا لیکن اللہ انسانوں کی تدبیروں کو ان پر ہی الٹ دیتا ھے وہ جج جن کو کوئی جرنیل کبھی خاطر میںنہ لایا جنہوں نے ہمیشہ ان کے در پر سجدے کئے ان سے بزور اپنے لئے سند حکمرانی حاصل کی اور پھر اسی زور پر ان کو ججی سے نکال باھر کیا ان ھی میں سے ایک جج نے انکار کی جرائت کی تو آسمان نے یہ حالات دیکھے کہ جنرل کی بے بسی قابل دید ھے باقی ججوںکے لئے بھی اس نے سجدہ کرنا مشکل بنا دیا انکی کمریں بھی لکڑ کی بن گئیں عوام نےجنرل پر جج کا جوتا برستا دیکھا تو وہ بھی اس موسم میں موسم کی شدت کوخاطر میں لائے بغیر میدان میں نکل آئے انہوں نے ساری دنیا کو بتلا دیا کہ وہ بے حس بےوقوف بے شعور نہیں ہیں ان کی حالات پر پوری نظر ھے لیکن وہ نعرہ بازوں کے چنگل مین نہیں پھنسین گے عوام کو بھی اپنا جوتا چلانا آتا ھے عوام اپنے جوتے کی مکمل دیکھ بھال کرتے ہیں اور جب اسے استعمال کرتے ہیںتو اس کی مار میں بہت شدت ھے عوام جانتے ہین کہ نیا جوتا مشکل
سے ملتا ھےلیکن جب انہیں اس کا استعمال کرنا ہو تو وہ جون کی گرمی میںبھی اس کے استعمال سے پرھیز نہیں کرتے
تو کیاوقت جشن آپہنچا اونچی پگڑیوں کو آچھالنے اور کبھی خدا کے آگے بھی نہ جھکنےوالے سروں کو کاٹنے کا لمحہ آپہنچا
مجھے یہ کہنے کی آجازت دیجئے کہ نہیں نہین آپ خوابوں کی دنیا بسائے بیٹھے ہیںابھی تو شعلہ بھڑکا ھے ابھی تو پروانوں جانثاروں کو اذن جانثاری ملا ھے ابھی تو یہ دیکھا جانا ھے کہ کوں سا مجنوں جان کی قربانی دینے والا ھے کون اپنے خوں سے اپنی داستان قلم کرے گآپ اگر اس خیال میں ہیں کہ ظالم ظلم سے توبہ کر لےگا اس قوم کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دےدیا جائےگا تو یہ بات غلط ھے کیا آپ نے نہیںدیکھا کہ اس قوم کو کیسے کیسے بہلاوئے دئے گئے وہ قوم جس نے اپنی آزادی کا آغاز قربانیوں سےکیا اور ساٹھ سال سے قربانیوںکا سلسلہ جاری وساری ھے جسے روز یہ بتایا جاتا ھے کہ اس کے لئےسب سے بہتر راستہ یہ ھے کہ وہ طاقتور کے سامنے سر جھکا لےاور جو روز اس بات سے انکاری ھےاور اپنے مقصد کے لئے قربانیاں دئے جارھی ھے خوشی کی بات یہ ھے کہ اس قوم بےنواکو کوئی نہ کوئی سرفروش ایسا مل جاتا ھے جو اس میں ایک نئی امید کی کرن جگا جاتا ھے ایسے حالات میںقربانیاںقوم کو ایک نئی زندگی دے جاتی ہین حالات کل کو کوئی اور رنگ اختیار کر جائیںاس قوم کو کچھ دیر اور انتظار کرنا پڑ جائے لیکن اس چلچلاتی دھوپ کے بعد ٹھنڈی چھاوں ضرور ھے

2 comments:

میرا پاکستان said...

اچھی اور جاندار تحریر ہے
عوام کے جوتے کے بعد ایک چھتر پولیس کا بھی ہوتا ہے اور یہ تب استعمال ہوتا ہے جب ظالم پکڑا جاتا ہے تو پھر عوام یک زبان ہو کر بولتی ہے "آجا میرے بالما تیرا انتظار ہے"

بولتے ھاتھ said...

میں آپ کے اچھے تاثرات کا شکرگزار ہوں جب عوام کا جوتا برستا ھے کسی اور جوتے کی ضرورت محسوس نہیںہوتی