حکومت کے معاملات حکمران ھی بہتر جانتے ہیں لیکں ریاست عوام کے بھروسے پر ھے آگر عوام ریاست کے معاملات سے بے تعلق ہو جائے تو ملک میں انارکی پھیل جاتی ھے اس حالت میں مفاد پرستوںکی بن آتی ھےزور آور یہ سمجتھے ہیںکہ ان کو روکنے والا کوئی نہیں ھے آپنے آپ کو خداسمجھنے لگتے ہیں اس حالت میں عوام کے لئے ایک ھی راستہ ھوتا ھےکہ خدا کے سامنے اپنی فریاد پیش کرے عوام کا اجتمائی شعور انتہائی بلند ھوتا ھے وہ موقع کی تلاش میں بییٹھ جاتے ہیں ان کا آجتمائی شعور انہیں اجتمائی خودکشی سے روکتا ھے وہ فرعون کے لئے موسی کا انتظار کرتے ہیں اس وقت کے عقل مند عوام کی لاتعلقی دیکھ کر اسے ھےلعن طعن کرنا شروع کردیتے ہیں اسے ھی تمام معاملات کا باعث قرار دیتے ہیں وہ خدا کی تقدیر تدبیر اورخدائی کو بھول کر ظاھری حالات کے مطابق فیصلے سنانا شروع کر دیتے ہیں ان کے نزدیک معاملات صرف مادی حالات کے مطابق چلتے ہیں وقت نے ہمشہ انہیں غلط ثابت کیا ھے اللہ سے انکی بےبسی دیکھی نہیں جاتی آخر فلک سے ان کے نالوں کا جواب آتا ھے
جب جنرل نے یہ سمجھا کہ حالات اس کے قابو میں ہیں اس نے اپنے منصوبے پر عمل کرنا شروع کر دیا لیکن اللہ انسانوں کی تدبیروں کو ان پر ہی الٹ دیتا ھے وہ جج جن کو کوئی جرنیل کبھی خاطر میںنہ لایا جنہوں نے ہمیشہ ان کے در پر سجدے کئے ان سے بزور اپنے لئے سند حکمرانی حاصل کی اور پھر اسی زور پر ان کو ججی سے نکال باھر کیا ان ھی میں سے ایک جج نے انکار کی جرائت کی تو آسمان نے یہ حالات دیکھے کہ جنرل کی بے بسی قابل دید ھے باقی ججوںکے لئے بھی اس نے سجدہ کرنا مشکل بنا دیا انکی کمریں بھی لکڑ کی بن گئیں عوام نےجنرل پر جج کا جوتا برستا دیکھا تو وہ بھی اس موسم میں موسم کی شدت کوخاطر میں لائے بغیر میدان میں نکل آئے انہوں نے ساری دنیا کو بتلا دیا کہ وہ بے حس بےوقوف بے شعور نہیں ہیں ان کی حالات پر پوری نظر ھے لیکن وہ نعرہ بازوں کے چنگل مین نہیں پھنسین گے عوام کو بھی اپنا جوتا چلانا آتا ھے عوام اپنے جوتے کی مکمل دیکھ بھال کرتے ہیں اور جب اسے استعمال کرتے ہیںتو اس کی مار میں بہت شدت ھے عوام جانتے ہین کہ نیا جوتا مشکل
سے ملتا ھےلیکن جب انہیں اس کا استعمال کرنا ہو تو وہ جون کی گرمی میںبھی اس کے استعمال سے پرھیز نہیں کرتے
تو کیاوقت جشن آپہنچا اونچی پگڑیوں کو آچھالنے اور کبھی خدا کے آگے بھی نہ جھکنےوالے سروں کو کاٹنے کا لمحہ آپہنچا
مجھے یہ کہنے کی آجازت دیجئے کہ نہیں نہین آپ خوابوں کی دنیا بسائے بیٹھے ہیںابھی تو شعلہ بھڑکا ھے ابھی تو پروانوں جانثاروں کو اذن جانثاری ملا ھے ابھی تو یہ دیکھا جانا ھے کہ کوں سا مجنوں جان کی قربانی دینے والا ھے کون اپنے خوں سے اپنی داستان قلم کرے گآپ اگر اس خیال میں ہیں کہ ظالم ظلم سے توبہ کر لےگا اس قوم کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کا حق دےدیا جائےگا تو یہ بات غلط ھے کیا آپ نے نہیںدیکھا کہ اس قوم کو کیسے کیسے بہلاوئے دئے گئے وہ قوم جس نے اپنی آزادی کا آغاز قربانیوں سےکیا اور ساٹھ سال سے قربانیوںکا سلسلہ جاری وساری ھے جسے روز یہ بتایا جاتا ھے کہ اس کے لئےسب سے بہتر راستہ یہ ھے کہ وہ طاقتور کے سامنے سر جھکا لےاور جو روز اس بات سے انکاری ھےاور اپنے مقصد کے لئے قربانیاں دئے جارھی ھے خوشی کی بات یہ ھے کہ اس قوم بےنواکو کوئی نہ کوئی سرفروش ایسا مل جاتا ھے جو اس میں ایک نئی امید کی کرن جگا جاتا ھے ایسے حالات میںقربانیاںقوم کو ایک نئی زندگی دے جاتی ہین حالات کل کو کوئی اور رنگ اختیار کر جائیںاس قوم کو کچھ دیر اور انتظار کرنا پڑ جائے لیکن اس چلچلاتی دھوپ کے بعد ٹھنڈی چھاوں ضرور ھے
2 comments:
اچھی اور جاندار تحریر ہے
عوام کے جوتے کے بعد ایک چھتر پولیس کا بھی ہوتا ہے اور یہ تب استعمال ہوتا ہے جب ظالم پکڑا جاتا ہے تو پھر عوام یک زبان ہو کر بولتی ہے "آجا میرے بالما تیرا انتظار ہے"
میں آپ کے اچھے تاثرات کا شکرگزار ہوں جب عوام کا جوتا برستا ھے کسی اور جوتے کی ضرورت محسوس نہیںہوتی
Post a Comment