Thursday, May 15, 2008

Sahar





Sent from my phone using trutap



Thursday, February 21, 2008

اسداللہ خاں غالب


ایک اسداللہ غالب تھے وہ کہہ گٰئے
بنا ہے شاہ کا مصاحب اور بنا ہے اتراتا
ورنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ھے
اور یہ اسد اللہ خاں غالب ہیں ان کا فرمان خود پڑھیے یہ بھی اپنے آپ کو دانشور کہتے ہیں

Thursday, December 27, 2007

ماتم

کس بات کا ماتم کیا جائے بے نظیر کے مرنے کا چار بچوں کی ماں کے مرنے کا ایک بیوی کا خاوند سے بچھڑنے کا ایک لیڈر کے مرنے کا ملک کی ایک ایسی رھنما کا جو اس ملک کو آپس مین جوڑنے کے لئے زننجیر تھی میں کبھی بھی بے نظیر کا فیں نہیں رھا لیکن میں نے دوستوں کت سامنے ھمیشہ اس بات کا اقرار کیا حے کہ بے نظیر اس ملک کا سرمایہ ھیں اس ملک مین اس کے لاکھوں پیروکار ہیں وہ اپنے لحاظ سے سوچتی ہے اس مین اتنی قابلیت ہے کہ وہ جس بات کو سچ سمجھے اس کے لئے دلائل لا سکے وہ اور نواز شریف یہ دعوہ کر سکتے تھے کہ وہ قومی رھنما ہیں اس کے جسم سے نکلنے والے خون کے قطروں نے اس کی جان لے لی اور پاکستان کے جسم کو انتہائی کمزور کر دیا ھے میں کس کے ھاتھ پر اس کا خون تلاش کرو دشمن کا وار گہرا بہی ھے اور دو دھاری بھی اس نے میری قوم کو نقصان بھی پہنچایا حے اور آپس میں لڑایا بھی مین کس کی طرف دلاسے کی لِے دیکھوں میں تو یہ محسوس کر رھا ھوں کہ میرا سارہ جسم سن ھو چکا میں بے بسی سے آدم خور گدوں کو آپنے ارد گرد منڈلاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ان کی خوشی سے نکلتی ہوئی چیخوں کو سن رہا ہوں اپنے نام نہاد رہنماوں کو انکے آگے سر جھکائے اگلے حکم کا منتظر دیکھ رہاہوں کیا وہ صبح صادق کا خواب جھوٹا خواب تھا جو میں نے دیکھا تھا نہیں نہیں وہ خواب سچا ھے مجھے یہ یقیں ھے کی صبح صادق آچکی مجرم سے شروع ہو نے والا سال اپنے سا تھ ضرور پاکستانیوں کے لئے عزت وآبروکا پیغام لائے گا محرم کا مہینہ نئے دور کا اٰلان ھو گا

Tuesday, November 6, 2007

صبح صادق

مجھے ایسے لگ رھا حے کہ صبح صادق قریب ھے حالات جس نہج پر جا رھے ہیں اس سے تو ایسا ھی نظر آرھا ھےمیری یہ دعا تھی کہ واقعات آگے بڑھیں اس ایمرجنسی کے نفاذ نے معاملہ کو آخری سٹیج پر پہنچا دیا ھے بقول جنرل صاھب اس سٹیج پر مکمل جمہوریت بحال ھو جاےَ گی یہ بات سچ ھے اور یقیننا ایسا ھی ھو گا لیکن یہ جمہوریت کی شکل کیسی ھو گی اور کس کی پنسد کی ھو گی یہ دنوں ہفتوں اور مہینوں کی بات ھے سالوںکی نہیں

Sunday, July 22, 2007

صبح کاذب

صبح کاذب
ایک فیصلہ ھی ھے لمبے سفر کا پھلا قدم اس فیصلے نے قوم کو اگلا قد م اٹھانے پر مجبور کرنا ھے آپ کے خیال میں تاریکی کی قوتیں اتنی بے بس ھیں اتنی لاچار ھیں کہ وہ پہلی مخالفت پر ھتیار پھینک دیں کیا صدر کو بیھٹے بھیٹے یہ خیال آیا کہ چیف کو باھر نکال دینا چاھئے یہ خیال اگر آیا بھی کوئی نہ کوئی وجہ اس کا باعث تھی تو کیا وہ وجہ ختم ھو گئی کیا وہ صدر جو یہ کہتا ھے کہ آپ ھتیھار پھینک دیں ورنہ مارے جاو گے یا ھم آپ کو وھاں سے ھٹ کریں گے جہاں سے آپ کے وھم وگماں میں بھی نہ ھو گا یا چالیس پنتالیس لاشوں پر کھڑا ہو کر جو یہ کہے کہ کراچی کے عوام نے طاقت کا مظاھرہ کیا ھے تو وہ خالی ھاتھ جن کی ھاتھ میں ھرف کسی کا فیصلہ کرنا ھے ان کے آگے سر جھکا دے گا وہ شخص جو صرف طاقت کے مظاھرے کو مانتا ھو اور جانتا ھو کہ گولی میں کتنی طاقت ھے وہ اب آرام سے بیھٹھ جائے گا مجھے یہ کہنے کی آجازت دیجئے کہ ایسا نہہیں ھے
دور کیوں جائیں چند سال پہلے کی بات ھے نواز شریف اور اسحاق خاں کی چپقلش کو یاد کیجئے یہی عدالت تھی اسی نے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیا تھا لیکں ھم سب جا نتے ھیں کہ اس فیصلہ پر عمل نہ ھوا دونوں لڑتے وقت یہ بھول گئے کہ بندوق کسی کے ھاتھ میں نہ ھے ایک عوام کی طاقت پر ناز کرتا مارہ گیا دوسرہ ایسٹبلشمنٹ کی طاقت پر بھروسہ کیئے ھوئے تھا اور وہ جن کے ھاتھ میں بندوق تھی انہوں نے دونوں کو اٹھا باھر پھینکا اب بھی ویسی ھی تکون ھے کچھ کچھ فرق ھے ایک طرف عدلیہ ھے جس کے ساتھ عوام اب فرق یہ ھے کہ عوام کل وھم عدلیہ کے حق میں ھیں ان کے ساتھ وکیل ھیں دلائل کی طاقت سے مالامال مڈل کلاس کے نمائندے اتحاد کی قوت سے آراستہ صحیح اعتدال پسندی کے مظھر دوسرے فریق صدر ہیں طاقت کی زبان جاننے والے اندرونی طاقت کے خزانوں پر قابض پر اسرار طاقتوں کےما لک سب کی کمزوریوں اور توانایئوں کے عالم سمندر پار طاقتوں کے پسندیدہ امریکہ کی آنکھ کے تارےیورپ کے پیارے روشن خیالوں کے دلارے بندوق جن کی ھاتھ میں ھےجس پر وہ تان لیں وہ جان کی آمان نہ پائے تییسرے میرے جیسے لاچار ومجبور تماشہ دیکھنے والے ھاتھ اٹھائے ھوئے یہ دعا کرنے پر مجبور کہ کاش بندوق سے گولی نہ چلے تو جب حلات یہ ھوں تو کون سی صبح اور نوید نو یہ تو صبح کاذب ھے اسکے صبح صادق میں بدلنے کی دعا کیجئے سچ یہ ھے کہ ھر صبح کاذب صبح صادق کی نوید ھوتی ھےآپ خود سوچیے حکومت نے یہ سارہ منظر اپنے آپ کو ذلیل کرنے کے لئے سجایا تھااگر اس کا جواب نہیں میں ھے تو حکومت کے اگلے قرم کا انتظار کریں

Thursday, July 19, 2007

چار ملک

میں جب بھی سوچتا ھو ں تو مجھے فلسطین افغانستاں عراق اور پاکستان یاد آتے ھیں جب فلسطین کو یاد کرتا ھوں تو یاسر عرفات یاقد آتا ھے اس نے اسرائیل کے خلاف آواز آٹھائی جنگ لڑی دھشت گرد کہلایا زمین کے بدلے امن کا علم بردار بنا نوبل انعام کا حقدار ٹھرایا گیاآخر اسی امریکہ کا کاسہ لیس بنا اپنے ھی عوام نے چھوڑ دیا عوام حماس کے ھو گئے امریکہ کی نظر میں عوام دھشت گرد اور یاسر عرفات اعتماد کے قابل بن گیا آخر میں اسرائیل نے جوتے مارے اور یاسر عرفات اپنے مھربانوں کی طرف دیکھتا رھا عباس کو اس کی جگہ لایا گیا اور صاف بتا دیا کہ نوالہ بھی اس وقت ملے گا جب اپنوں کو مارو گے
افغان بھی کبھی امریکہ کے چھیتے تھے مدرسوں کے طالب علموں کو مجاھدوں مین شامل کرتے تھے ان پر فخر کیا جاتا تھے کرزئی اور طالب ایک تھے لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا کرزئی منظور نظر ٹھرا اور طالب زمانے کے اجھڑ صورت حال یہ ھے کہ عام افغانیوں کو مار کرطالبان قرار دے دیا جاتا ھے اور کرزئ سے اسپر قبولیت کی سند لی جاتی ھے عوام تباھ ملک برباد اور اقوام علم اس پر خوش کہ دھشت گردوں کو چن چن کر مارا جا رھا ھے
عراق وہی صدام جی ھان ایران کے خلاف لڑنے والا مرد میدان جس کی ھر لحاظ سے مدد کی گئی لیکں پھر اسے ڈکٹیٹر قرار دیا گیا اور اس بہانے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی اب وھی عراق ھے جس کا خود اقرار کرتے ھیں کہ دھشت گردوں سے بھرا پڑا ھے
پاکستا ن دھشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑا حواری سب سے زیادہ جس ملک کے فوجی اس جنگ میں مرے وہ پاکستان ھے وہپی مشرف جس سے ملنے کے لئے امریکہ کا صدر تیار نہ تھا اب وہی منظور نظر ھے اس کے عوام کو کوئی مارے وہ ٹھیک کیونکہ وہ انتہا پنسد ہیں چاھے وہ ان کی حفاظت کرنے والے ہوں اور چاھے سمندر پار سے آنے والے
یہ تمم باتیں سچ ہیں لیکں سب سے بڑا سچ یہ ھے کہ یہ تمام ملک مسلمان ھیں تیں ملک تباہ ھو چکے آخری کی تیاری ھے مسلمان مسلمان کو مار رھا ھے ایک طبقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھ کر لڑ رھا ھے اور دوسرا اس لئے اسے مار رھا ھے اس سے اقوام عالم میں عزت نہیں ملتی
فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے دُنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

Thursday, May 10, 2007

انقلاب


ھر قوم میںظالم بھی ہوتے ہیںاور مظلوم بھی ظالم کے لئے صرف ایک مقصد ہوتا ھے صرف اپنے مفادات کی حفاظت اسلئے اس کی ہر حرکت ہر کام اسی مقصدکو پورا کرنے کے لئے یوتا ھے اسکے لئے کسی قانون ظابطہ کی پروا نہیںکی جاتی ھے ہر قانون کو نوک خنجر اور پاؤں کی ٹھوکر سے تہہ وبالا کر دیا جاتا ھے صرف اور صرف اپنا ذاتی مفاد جس کو کوئی بھی خوش کن نام دے دیا جاتا ھے جیسے قومی مفاد سربلندی قوم وقار ملت حتکہ اسے ھی قانون کی حکمرانی قرار دے دیا جاتا ھے اس کے مقابلہ میں دوسرہ گروہ مظلوم عوام کا ھے جن کا کام ان مظالم کو سہنا ھے یہی لوگ قانون کی حکمرانی اور امن کے طلب گار ھوتے ہیں اگر قانون کی حکمرانی اور انصاف کا کچھ حصہ ہی انہیں میسر ھو جائے تو تھوڑی بہت زیادتی کو برداشت کرتے رھتے ہیں لیکں انصاف اور امن کے لئے ھل من مزید کا نعرہ ضرورلگاتے رھتے ہیں اور وہ بھی خاموشی کے ساتھ کبھی کبھار بلند آھنگ کے ساتھ ان کی مثال اس آگ کی سی ھے جو آھستہ آھستہ سلگتی رھتی ھے اس وقت ان سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا لیکن کبھی کبھار یہ آگ بھڑک اٹھتی ھے اور آس پاس کی ھر چیز کو راکھ کر دیتی ھے اسے انقلاب کا نام دے دیا جاتا ھے