Thursday, May 10, 2007

انقلاب


ھر قوم میںظالم بھی ہوتے ہیںاور مظلوم بھی ظالم کے لئے صرف ایک مقصد ہوتا ھے صرف اپنے مفادات کی حفاظت اسلئے اس کی ہر حرکت ہر کام اسی مقصدکو پورا کرنے کے لئے یوتا ھے اسکے لئے کسی قانون ظابطہ کی پروا نہیںکی جاتی ھے ہر قانون کو نوک خنجر اور پاؤں کی ٹھوکر سے تہہ وبالا کر دیا جاتا ھے صرف اور صرف اپنا ذاتی مفاد جس کو کوئی بھی خوش کن نام دے دیا جاتا ھے جیسے قومی مفاد سربلندی قوم وقار ملت حتکہ اسے ھی قانون کی حکمرانی قرار دے دیا جاتا ھے اس کے مقابلہ میں دوسرہ گروہ مظلوم عوام کا ھے جن کا کام ان مظالم کو سہنا ھے یہی لوگ قانون کی حکمرانی اور امن کے طلب گار ھوتے ہیں اگر قانون کی حکمرانی اور انصاف کا کچھ حصہ ہی انہیں میسر ھو جائے تو تھوڑی بہت زیادتی کو برداشت کرتے رھتے ہیں لیکں انصاف اور امن کے لئے ھل من مزید کا نعرہ ضرورلگاتے رھتے ہیں اور وہ بھی خاموشی کے ساتھ کبھی کبھار بلند آھنگ کے ساتھ ان کی مثال اس آگ کی سی ھے جو آھستہ آھستہ سلگتی رھتی ھے اس وقت ان سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتا لیکن کبھی کبھار یہ آگ بھڑک اٹھتی ھے اور آس پاس کی ھر چیز کو راکھ کر دیتی ھے اسے انقلاب کا نام دے دیا جاتا ھے

1 comment:

میرا پاکستان said...

انقلاب کی آگ کو بھڑکانے کیلیے عوام کے ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن انقلاب کے بعد دیکھا یہ گیا ہے کہ ایندھن عوام کا استعمال ہوتا ہے مگر سردی خواص کی کم ہوتی ہے۔